"Ruh-Navesht— Writings of Soul

Full width home advertisement

کتابی تبصرہ "ناممکن ریاست"

کتابی تبصرہ  "ناممکن ریاست"

کتابی تبصرہ: "ناممکن ریاست" از وائل بی. حلاق



تعارف

اسلامی دنیا میں جدید ریاست اور شریعت کے درمیان تعلق ہمیشہ ایک پیچیدہ اور نازک معاملہ رہا ہے۔ بہت سے مسلمان دانشور اور مصلحین ایک ایسی ریاست کے قیام کے خواہاں رہے ہیں جو اسلامی شریعت کے اصولوں پر مبنی ہو، مگر ساتھ ہی جدیدیت کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہو۔ تاہم، وائل بی. حلاق اپنی کتاب The Impossible State میں ایک جراتمندانہ اور غیر روایتی موقف اختیار کرتے ہیں۔ وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ ایک "اسلامی ریاست" کا قیام نہ صرف غیر عملی بلکہ خود ایک تضاد (contradiction in terms) ہے۔ ان کے مطابق، جدید ریاست کا تصور اور اسلامی شریعت کی روایتی شکل بنیادی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے۔

یہ کتاب اسلامی سیاسی فکر، جدیدیت، اخلاقیات، اور استعماری اثرات جیسے موضوعات پر نہایت اہم مباحث کو جنم دیتی ہے اور قاری کو مجبور کرتی ہے کہ وہ ریاست، قانون اور اخلاقیات کے تعلق پر از سرِ نو غور کرے۔

مصنف کا تعارف

وائل بی. حلاق ایک ممتاز اسلامی قانون دان اور دانشور ہیں، جن کا کام اسلامی قانون، سیاسی فکر، اور جدیدیت کے نقاد کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ مشہور کتاب Sharīʿa: Theory, Practice, Transformations کے مصنف بھی ہیں اور ان کا شمار مغرب میں اسلامی قانون کے معتبر ترین ماہرین میں ہوتا ہے۔


کتاب کا خلاصہ

یہ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے، جن میں اسلامی اور جدید ریاست کے بنیادی تضادات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔

باب اول: مقدمات (Premises)

حلاق ابتدا میں اس بنیادی سوال کو اٹھاتے ہیں کہ "اسلامی ریاست" کا تصور تاریخی طور پر کس حد تک حقیقی ہے؟ وہ دکھاتے ہیں کہ کلاسیکی اسلامی دنیا میں "ریاست" کا تصور مغربی جدیدیت سے یکسر مختلف تھا۔ اسلامی شریعت ایک "مکمل نظامِ اخلاق" تھا جو نہ صرف قانون بلکہ سماجی و ثقافتی اقدار کا بھی تعین کرتا تھا۔ تاہم، نوآبادیاتی دور کے بعد، جدید مغربی ریاست کے اصول اسلامی ممالک پر مسلط کر دیے گئے، جس کے نتیجے میں شریعت کا اصل کردار ختم ہو گیا۔

باب دوم: جدید ریاست (The Modern State)

یہ باب جدید ریاست کے بنیادی خدوخال اور اس کی تاریخ پر روشنی ڈالتا ہے۔ حلاق جدید ریاست کو پانچ بنیادی ستونوں پر کھڑا پاتے ہیں:

  1. تاریخی استثناء – جدید ریاست ایک مخصوص مغربی تجربے سے پیدا ہوئی ہے، جس میں قومی خودمختاری (sovereignty) کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
  2. خودمختاری اور مطلق العنانیت – ریاستی خودمختاری ایک ایسا تصور ہے جو اسلامی شریعت کے تصورِ حاکمیت (حاکمیتِ الٰہیہ) سے متصادم ہے۔
  3. قانون سازی کا انحصار ریاست پر – جدید ریاست میں قانون سازی کا اختیار مکمل طور پر حکومت کے پاس ہوتا ہے، جبکہ کلاسیکی اسلامی نظام میں فقہا اور قاضی اس عمل میں کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔
  4. ریاستی بیوروکریسی – جدید ریاست میں ایک منظم بیوروکریٹک نظام ہوتا ہے جو معاشرے پر مکمل کنٹرول رکھتا ہے۔
  5. قومی شناخت اور ہیجیمونی – جدید ریاست قومی تشخص (nationalism) کی بنیاد پر چلتی ہے، جبکہ اسلامی شریعت کا تصور امت پر مبنی تھا، جو قومی سرحدوں سے آزاد تھا۔

باب سوم: طاقت کی علیحدگی – قانون کی حکمرانی یا ریاست کی حکمرانی؟

یہ باب ریاست میں قانون کی حیثیت پر غور کرتا ہے۔ حلاق دکھاتے ہیں کہ جدید ریاست میں "قانون کی حکمرانی" (rule of law) کا تصور درحقیقت "ریاست کی حکمرانی" (rule of the state) میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس کے برعکس، اسلامی نظام میں قانون کو کسی فرد یا حکومت کی مرضی کے تابع نہیں بلکہ الہامی و اخلاقی اصولوں پر مبنی تصور کیا جاتا تھا۔

باب چہارم: قانون، سیاست، اور اخلاقیات

یہاں مصنف قانون اور اخلاقیات کے درمیان تعلق کا تجزیہ کرتے ہیں۔ وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ اسلامی شریعت صرف قانونی احکام کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک "اخلاقی نظام" تھا، جس میں عدالت، سیاست اور معیشت سب شامل تھے۔ جدید ریاست نے قانون کو محض ایک تکنیکی مسئلہ بنا دیا ہے اور اسے اخلاقیات سے کاٹ دیا ہے، جس کے نتیجے میں غیر اخلاقی قوانین اور استبدادی نظام وجود میں آئے ہیں۔

باب پنجم: سیاسی فرد اور اخلاقی تربیت

یہ باب اس بنیادی فرق پر روشنی ڈالتا ہے کہ اسلامی اور جدید ریاست کے اندر افراد کی شناخت (identity) کس طرح تشکیل دی جاتی ہے۔ جدید ریاست اپنے شہریوں کو ایک خاص طرح کی "قومی شناخت" دیتی ہے، جبکہ اسلامی نظام میں فرد کی شناخت اس کی روحانی اور اخلاقی تربیت پر مبنی تھی۔ حلاق اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جدید ریاست کا فرد "ریاستی مشین" کا ایک پرزہ بن کر رہ گیا ہے، جبکہ اسلامی معاشرے میں فرد اپنی اخلاقی اصلاح اور اجتماعی بھلائی کے لیے کام کرتا تھا۔

باب ششم: عالمگیریت اور اخلاقی معیشت

یہ باب معیشت اور عالمگیریت پر جدید ریاست کے اثرات کا جائزہ لیتا ہے۔ مصنف اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ جدید سرمایہ دارانہ نظام نے نہ صرف اسلامی بلکہ انسانی اقدار کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ جدید ریاست اور گلوبلائزیشن نے ایسی معیشت کو فروغ دیا ہے جو انسانی ضروریات کی بجائے منافع اور طاقت کے حصول پر مبنی ہے۔

باب ہفتم: اخلاقیات کا مرکزی دائرہ

یہ کتاب کا سب سے اہم باب ہے، جہاں حلاق یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اسلامی ریاست کا قیام ناممکن ہے کیونکہ جدید دنیا میں وہ اخلاقی بنیادیں موجود نہیں رہیں جن پر اسلامی طرزِ حکمرانی قائم ہو سکتا تھا۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اگر اسلامی شریعت کو بحال کرنا ہے تو اس کے لیے سب سے پہلے جدید اخلاقی بحران کو حل کرنا ہوگا۔


کتاب کے نمایاں نکات

  • اسلامی شریعت محض ایک قانونی ضابطہ نہیں بلکہ ایک مکمل اخلاقی، سماجی اور سیاسی نظام تھا۔
  • جدید ریاست مغربی تاریخی تجربے سے پیدا ہوئی اور اسلامی اصولوں کے ساتھ اس کی کوئی ہم آہنگی نہیں۔
  • ریاستی خودمختاری اور اسلامی قانون سازی کے اصول ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔
  • جدیدیت نے اخلاقیات کو ریاست سے الگ کر دیا ہے، جس کی وجہ سے قانون بے روح ہو گیا ہے۔

یہ کتاب اسلامی اور جدید ریاست پر بہت گہرا اور علمی مکالمہ پیش کرتی ہے۔ حلاق کا استدلال نہایت مضبوط، منطقی اور تاریخی شواہد پر مبنی ہے۔ تاہم، کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ وہ جدید دنیا کے عملی مسائل کا کوئی واضح حل پیش نہیں کرتے۔

"The Impossible State" اسلامی قانون، سیاست اور جدیدیت کے درمیان تعلق کو سمجھنے کے لیے ایک نہایت اہم اور انقلابی کتاب ہے۔ یہ کتاب ان تمام افراد کے لیے ناگزیر ہے جو اسلامی ریاست اور جدیدیت کے مسائل پر گہرائی سے غور کرنا چاہتے ہیں۔


1 comment: