هذه هي الليلة التي قال الله تعالى عنها:
لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ
(ليلة القدر خير من ألف شهر.) – سورة القدر: 3
إنها الليلة التي تتنزل فيها الملائكة أفواجًا، الليلة التي ترفع فيها الأيدي بالدعاء، الليلة التي تدمع فيها العيون، الليلة التي تطول فيها السجدات، الليلة التي تملأ أنسام الرحمة أرجاء المساجد، الليلة التي تعمر فيها المصليات، الليلة التي تلهج فيها الألسنة بالذكر، الليلة التي يكون فيها القرب من الله أقرب ما يكون.
ولكن هذه الليلة... كانت المساجد خاوية.
الجدران ساكنة، تلك الجدران التي كانت تهتز بصدى التلاوة، سادها الهدوء، لكنه ليس هدوءًا مطمئنًا، بل هو صمت مؤلم، صمت يصرخ بحال أمة غافلة.
المحراب الذي كان يصدح منه صوت الإمام بخشوع، أصبح صامتًا. تلك السجادات التي كانت مثقلة بالسجدات، خالية مهجورة. الأجواء التي كانت تهتز بصوت "آمين"، أضحت ساكنة كأنها لم تعرف يومًا معنى الحياة.
هل أدركنا حقًا قيمة هذه الليلة؟ هل شعرنا بالخسارة العظيمة التي حلت بنا؟
هذه المساجد الفارغة تصفعنا بحقيقتنا، تعكس لنا صورة أنفسنا التي غرقت في الدنيا ونسيت الآخرة.
نحن الأمة التي كان نبيها ﷺ يوقظها للعبادة في رمضان، نحن الأمة التي أمرت بالاعتكاف في العشر الأواخر، نحن الأمة التي وُصِفَت بأنها خير أمة أخرجت للناس، فكيف وصل بنا الحال إلى أن تصبح مساجدنا خاوية في أعظم ليالي العام؟
أين نحن من الصحابة الذين كانوا يستعدون لهذه الليلة طوال العام؟ أين نحن من الصالحين الذين كانوا يقضون حياتهم في انتظار هذه الفرصة العظيمة؟
أم أننا أضعنا هذه الليلة بأيدينا؟
قد تكون أبواب السماء ما زالت مفتوحة، وقد تكون الملائكة تتنزل، وقد تكون رحمة الله تغمر كل شيء، ولكن غفلتنا حجبتنا عن إدراكها.
هذه المساجد المهجورة ليست مجرد أبنية، إنها انعكاس لحالة إيماننا. إن لم تهتز قلوبنا لهذا المشهد، فمتى ستتحرك؟
ما زال هناك وقت.
ما زالت رحمة الله واسعة.
ما زالت السجادات تنتظر الساجدين.
ما زال باب التوبة مفتوحًا.
ما زال بإمكاننا العودة.
فلنعد قبل أن نصبح نحن أيضًا مهجورين، قبل أن يفوت الأوان…!
ترجمہ
یہ وہ رات تھی جس کے بارے میں قرآن کہتا ہے:
لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ
(شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔) – سورۃ القدر: 3
یہ وہ رات تھی جس میں فرشتے جوق در جوق اترتے ہیں، یہ وہ رات تھی جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں، جب آنکھیں نم ہوتی ہیں، جب سجدے طویل ہوتے ہیں، جب رحمت کی ہوائیں مسجدوں کو مہکا دیتی ہیں، جب مصلے آباد ہوتے ہیں، جب لبوں پر اذکار ہوتے ہیں، اور جب اللہ کا قرب نصیب ہوتا ہے۔
مسجد کے در و دیوار خاموش تھے، وہ دیواریں جو کبھی تلاوت کی گونج سے لرزتی تھیں، آج پرسکون تھیں، مگر یہ سکون، راحت کا نہیں تھا، بلکہ ایک دردناک خاموشی تھی—ایسی خاموشی جو چیخ چیخ کر امت کی بے حسی کا نوحہ کہہ رہی تھی۔
محراب، جہاں کبھی امام کی آواز میں سوز ہوتا تھا، آج خاموش تھی۔ وہ مصلے، جو کبھی سجدوں سے بوجھل ہو جاتے تھے، آج خالی پڑے تھے۔ وہ فضائیں، جو کبھی "آمین" کی آوازوں سے گونجتی تھیں، آج سنسان تھیں۔
کیا ہم نے واقعی اس رات کی قدر کی؟ کیا ہمیں احساس بھی ہے کہ کون سا خزانہ ہم سے چھوٹ رہا ہے؟
یہ مسجد ہمیں پکار رہی ہے
یہ خالی مسجد ہمیں جھنجھوڑ رہی ہے، ہمیں آئینہ دکھا رہی ہے کہ ہم نے اپنی ترجیحات کیسے بدل لیں۔
ہم وہ امت ہیں جسے نبی کریم ﷺ نے رمضان میں عبادت کے لیے جگایا تھا، جسے آخری عشرے میں اعتکاف کا حکم دیا تھا، جسے لیلۃ القدر کو تلاش کرنے کی تلقین کی تھی۔ لیکن آج ہم بازاروں میں، موبائل کی اسکرینوں میں، بے مقصد مشغلوں میں، اور سوشل میڈیا کی دنیا میں کھوئے ہوئے ہیں۔
ہم وہی امت ہیں، مگر ہماری روح مردہ ہو چکی ہے۔
کیا یہ وہی رات ہے جس کے لیے صحابہؓ پورا سال تیاری کرتے تھے؟ کیا یہ وہی رات ہے جس کے لیے بزرگانِ دین پوری زندگی عبادت میں گزار دیتے تھے؟
یا یہ وہی رات ہے جو ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے کھو دی؟
ہو سکتا ہے کہ آج بھی آسمان کے دروازے کھلے ہوں، فرشتے نازل ہو رہے ہوں، اللہ کی رحمت ہر سو برس رہی ہو، مگر ہماری غفلت نے ہمیں اس سعادت سے محروم کر دیا ہو۔
یہ خالی مسجد صرف ایک عمارت نہیں، یہ ہمارے ایمان کی حالت کا عکس ہے۔ اگر آج ہم نے اس خالی مسجد کو محسوس نہیں کیا، اگر آج بھی ہمارے دل نہیں پگھلے، تو کب پگھلیں گے؟
اب بھی اللہ کی رحمت کے دروازے کھلے ہیں۔
اب بھی ہم سجدے میں جا سکتے ہیں۔
اب بھی ہم معافی مانگ سکتے ہیں۔
اب بھی ہم واپس آ سکتے ہیں۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ کل ہم بھی ویران ہو جائیں، اور وقت گزر جائے…!
No comments:
Post a Comment