انسانی حیات میں کچھ عناصر ایسے ہیں جن کے بغیر زندگی کی معنویت ناپید ہوجاتی ہے۔ ان میں سے ایک سب سے لطیف عنصر ذوق ہے، اور ذوق کی سب سے حسین و نادر تجلی شعر ہے۔ شعر محض لفظوں کی جوڑ توڑ یا صوتی آہنگ کا کھیل نہیں، بلکہ وہ روح کا آئینہ اور دل کی دھڑکن ہے۔ یہ وہ لطیف قوت ہے جو انسان کو ماورائے مادّہ لے جاتی ہے، جہاں احساسات معانی میں ڈھلتے ہیں، اور معانی جمالیات کے قالب میں جا کر انکشافِ حقیقت کا ذریعہ بنتے ہیں۔
ہمارے مشرقی تہذیبی ورثے میں شاعری کو ہمیشہ ایک بلند مقام حاصل رہا۔ یہ محض تفریح یا وقت گزاری کا وسیلہ نہیں، بلکہ ایک تربیتی و تہذیبی فریضہ ادا کرتی ہے۔ عرب کے صحراؤں سے لے کر ہندوستان کے درباروں تک، شعر کو ہمیشہ انسانی حیات کی ایک اخلاقی، جمالیاتی اور فلسفیانہ قوت سمجھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ عرب کا شاعر قبیلے کا محافظ سمجھا جاتا، اور ہند کا شاعر سلطنت کے جاہ و جلال کا مظہر۔ مگر آج کے دور میں، جب تہذیب کے بامِ عروج کی جگہ مادّی دوڑ دھوپ نے لے لی ہے، تو شعر اپنی اصلی قدر سے محروم نظر آتا ہے۔
اسی زوالِ ذوق کا ایک منظر مجھے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا تجربہ ہوا۔
میں اپنے ایک دوست کے ساتھ کلاس میں موجود تھا۔ گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ ذہن میں احمد صدیقی کے یہ نادر اشعار اتر آئے۔ میں نے یہ شعر پڑھا:
خزاں کی رت میں گلاب لہجہ بنا کے رکھنا کمال یہ ہے
ہوا کی زد پہ دیا جلانا جلا کے رکھنا کمال یہ ہے
خیال اپنا، مزاج اپنا، پسند اپنی کمال کیا ہے؟
جو یار چاہے وہ حال اپنا بنا کے رکھنا کمال یہ ہے
یہ شعر محض چند مصرعوں کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک پوری کائنات ہے۔ خزاں میں گلاب لہجہ رکھنا دراصل اس بات کی علامت ہے کہ زندگی کی سختیوں میں بھی انسان اپنی گفتار کی خوشبو اور اپنے وجود کا حسن قائم رکھے۔ اور ہوا کی زد پر دیا جلانا، یہ انسانی عزم، حوصلے اور استقامت کا استعارہ ہے۔ اسی طرح محبوب کے حال کو اپنا حال بنانا، گویا یہ فنا فی المحبوب کی کیفیت ہے جس کی جڑیں تصوّف کی گہرائیوں تک جاتی ہیں۔
میں نے یہ اشعار سنائے تو سوچا کہ شاید اہلِ ذوق ,خاموش ہو جائیں گے، یا کم از کم لمحہ بھر کے لیے فضا میں کوئی سکوت طاری ہوگا۔ مگر جو کچھ ہوا، وہ اس کے بالکل برعکس تھا۔
چند طلبہ، جنہیں شعر کی بو تک نصیب نہ ہوئی تھی،وہ بعد میں گویا ہوے: ’’یہ کیسا ناموزوں کلام ہے؟‘‘
ناموزوں؟ احمد صدیقی کا یہ شاہکار کلام؟ وہ کلام جس میں زندگی کی لطافت اور استقامت کی خوشبو ہے، وہ ناموزوں؟
اس لمحے مجھے یوں لگا جیسے کسی نے گلاب کے پھول کو خار کہا ہو، جیسے کسی نے بلبل کی صدا کو شور سمجھا ہو، جیسے کسی نے چاندنی کو اندھیرا پکارا ہو۔
اصل میں یہ اشعار ’’ناموزوں‘‘ نہ تھے، بلکہ ان کے دل بے ذوق اور ان کے اذہان بنجر تھے۔ شعر تو آئینہ ہوتا ہے—وہ جو کچھ دکھاتا ہے، اس کا دار و مدار دیکھنے والے کی آنکھ پر ہے۔ جس کی آنکھ میں روشنی ہو، اسے شعر حقیقت کے جمال تک پہنچا دیتا ہے؛ اور جس کی آنکھ اندھی ہو، اس کے لیے شعر محض آوازوں کا ایک بےمعنی مجموعہ رہ جاتا ہے۔
مجھے یوں محسوس ہوا جیسے یہ طلبہ دراصل شعر پر نہیں، اپنی ہی بے ذوقی پر مہر ثبت کر رہے ہوں۔ وہی بات جو حالی نے کہی تھی کہ شعر دل والوں کے لیے تسکین اور بے دلوں کے لیے محض کھنکھناتا ہوا سکہ۔
یہاں سوال یہ ہے کہ آخر شعر کو سمجھنا اور اس کے ذوق سے بہرہ مند ہونا کیوں ہر ایک کے بس کی بات نہیں؟ اس کا جواب فلسفے کی دنیا میں پوشیدہ ہے۔
شعر ایک جمالیاتی تجربہ ہے، اور جمالیات کی بنیاد وجدان پر ہے، محض عقل پر نہیں۔ عقل حساب کرتی ہے، جبکہ وجدان دیکھتا ہے، محسوس کرتا ہے۔ جو شخص اپنی ذات کو وجدان کے دروازے سے روشنی کی طرف لے جانے کی کوشش نہیں کرتا، اس کے لیے شعر بےمعنی رہتا ہے۔ وہ اسے لفظوں کا کھیل سمجھ کر ردّ کر دیتا ہے۔
کلاس روم میں میرے سامنے یہی ہوا۔ جن کے دل میں ذوق کا چراغ نہ تھا، وہ کیسے ہوا کی زد پر جلتے دیے کی عظمت کو پہچان سکتے تھے؟
شعر محض الفاظ کی جڑت اور قافیوں کی بناوٹ کا نام نہیں۔ یہ دل کی دھڑکنوں کا آہنگ ہے، یہ روح کے اندر سے ابھرنے والی وہ صدا ہے جسے زبان محض ذریعہ بن کر ادا کرتی ہے۔ شاعر جب شعر کہتا ہے تو وہ دراصل اپنے احساسات کو الفاظ کے قالب میں ڈھالتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑا شعر محض لفظوں کا مجموعہ نہیں رہتا، بلکہ ایک ایسا آئینہ بن جاتا ہے جس میں زندگی اپنی پوری حقیقت اور اپنے پورے حسن کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔
احمد صدیقی کے ان اشعار میں جو لطافت ہے، وہ دراصل انسانی زندگی کے عظیم ترین تجربے کی تصویری شکل ہے۔ ’’خزاں کی رت میں گلاب لہجہ بنا کے رکھنا‘‘ — یہ مصرع محض موسمی استعارہ نہیں، بلکہ انسانی کردار کی اصل روح ہے۔ خزاں ہر انسان کی زندگی میں آتی ہے: دکھ، محرومیاں، ناکامیاں، جدائیاں۔ مگر جو شخص ان سب کے باوجود اپنی گفتار کو گلاب کی خوشبو سے معطر رکھے، اس نے زندگی کا اصل کمال پا لیا۔
اسی طرح ’’ہوا کی زد پہ دیا جلانا‘‘ محض مادی عمل نہیں، بلکہ یہ عزم و استقلال کا استعارہ ہے۔ دنیا ہمیشہ ہوا کی زد کی طرح ہے، جو ہر دم بجھانے پر تُلی ہے۔ مگر جس کے اندر کا چراغ عشق و ایمان سے روشن ہو، وہ ہر آندھی میں بھی جگمگاتا ہے۔
یہ اشعار، اگر دیکھا جائے، تو محض ذوقی بیان نہیں بلکہ ایک فلسفیانہ کائنات ہیں، جو انسان کو یہ سکھاتے ہیں کہ اصل کمال اپنی پسند میں نہیں بلکہ محبوب کی پسند میں ہے؛ اپنی مرضی میں نہیں بلکہ یار کی مرضی میں فنا ہونے میں ہے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ شعر کی فلسفیانہ حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ محض ایک جمالیاتی تجربہ ہے، یا اس کے اندر کوئی تہذیبی اور فکری پیغام بھی پوشیدہ ہے؟
فلسفہ ہمیں بتاتا ہے کہ انسان کی حقیقت محض جسمانی وجود نہیں بلکہ ایک باطنی کیفیت ہے۔ یہ کیفیت کبھی عقل سے ظاہر ہوتی ہے، کبھی عشق سے، اور کبھی وجدان سے۔ شعر ان تینوں کو ایک وحدت میں جمع کر دیتا ہے۔ وہ عقل کو معنی دیتا ہے، عشق کو آگہی دیتا ہے اور وجدان کو شکل عطا کرتا ہے۔
یونانی فلسفی افلاطون نے کہا تھا کہ شاعر ایک الہامی ہستی ہے، جس کے لبوں پر خدائی صدائیں اترتی ہیں۔ مشرقی روایت میں بھی یہی بات پائی جاتی ہے—شاعر کو ’’لسانِ قوم‘‘ کہا گیا ہے، اور شعر کو ’’قولِ فصیح‘‘۔ دراصل شعر وہ ذریعہ ہے جس سے انسان اپنے وجود کے اندر چھپی ہوئی حقیقت کو آشکار کرتا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ یہ حقیقت ہر ایک پر کیوں منکشف نہیں ہوتی؟
یہاں آکر ہمیں ’’بے ذوقی‘‘ کی اصل حقیقت سمجھ میں آتی ہے۔ بے ذوقی دراصل دل کی بے نوری ہے۔ جس دل میں نورِ جمال نہ ہو، جس کی آنکھ میں روشنی نہ ہو، وہ شعر کے حسن کو دیکھ ہی نہیں سکتا۔
میری کلاس کے ان چند طلبہ کی مثال لیجیے جنہوں نے احمد صدیقی کے اشعار کو ’’ناموزوں‘‘ کہا۔ وہ دراصل شعر پر نہیں ہنس رہے تھے، بلکہ اپنی ہی بے ذوقی کا ماتم کر رہے تھے۔ ان کے دل کی زمین بنجر تھی، اور بنجر زمین پر بارش بھی برس جائے تو سبزہ نہیں اگتا۔
یہی وہ حقیقت ہے جس کو کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ:
’’شعر کی تاثیر کا مدار سننے والے کی کیفیت پر ہے۔ اگر وہ دل کا ذوق نہ رکھتا ہو تو بہترین شعر بھی اس کے لیے بیکار ہے۔‘‘
مجھے کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ ایسے بے ذوق لوگ اگر بلبل کی صدا سنیں تو اسے شور کہیں گے، اگر طاؤس کو دیکھیں تو کہیں گے یہ پرندہ بہت رنگین ہے، اور اگر چاندنی رات میں بیٹھیں تو کہیں گے یہ روشنی کچھ زیادہ ہی دھندلی ہے۔
ان کے نزدیک شعر ’’ناموزوں‘‘ ہے، مگر ان کی اپنی گفتگو، ان کا بے ربط قہقہہ، ان کی کھوکھلی بحثیں موزوں ہیں! وہ چراغ کو بجھانے کی بات کرتے ہیں، اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ وہ روشنی کے طلبگار ہیں۔
یہ بے ذوقی محض چند طلبہ کی حالت نہیں، بلکہ ہمارے پورے معاشرتی ڈھانچے کی ایک علامت ہے۔ معاشرہ جب مادّی دوڑ دھوپ میں الجھ جاتا ہے تو اس کے افراد کے اندر جمالیاتی ذوق مر جاتا ہے۔ ادب، فنونِ لطیفہ اور جمالیات کو بیکار سمجھا جانے لگتا ہے۔ یہی وہ زوال ہے جسے ہمارے زمانے میں ہم سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
شعر کو ’’ناموزوں‘‘ کہنے والے دراصل تہذیب کے اس زوال کی علامت ہیں، جن کے نزدیک صرف وہی شے قیمتی ہے جو فوری فائدہ پہنچائے—چاہے وہ ڈگری ہو، نوکری ہو یا روپیہ۔ مگر وہ یہ نہیں سمجھتے کہ شعر وہ غذا ہے جو روح کو زندہ رکھتی ہے، اور جس معاشرے کی روح مر جائے، اس کا جسم زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتا۔
No comments:
Post a Comment