"Ruh-Navesht— Writings of Soul

Full width home advertisement

ایک تحقیق

ایک تحقیق

ایک تحقیق


دوپہر کا وقت تھا۔ ولدیرَف، جو ایک دراز قد، گٹھے ہوئے بدن کا دیہاتی رئیس تھا، جس کے سر کے بال چھوٹے چھوٹے کٹے ہوئے تھے اور آنکھیں ابھری ہوئی تھیں، اُس نے اپنے اوور کوٹ کو اُتارا، ریشمی رومال سے ماتھے کا پسینہ پونچھا اور کچھ جھجکتے ہوئے سرکاری دفتر میں داخل ہوا۔ اندر قلم چلنے کی سرسراہٹ تھی۔

"یہاں میں تحقیق کہاں کروا سکتا ہوں؟" اُس نے ایک چپراسی سے پوچھا، جو دفتر کے دور دراز گوشے سے شیشوں سے بھری ایک ٹرے لیے آ رہا تھا۔ "مجھے یہاں ایک معاملے کی تحقیق کرنی ہے اور کونسل کی قرارداد کی نقل حاصل کرنی ہے۔"

چپراسی نے ٹرے کو ہوا میں ہلکا سا جنبش دیتے ہوئے ایک دور کی کھڑکی کی طرف اشارہ کیا اور کہا:
"اُدھر جائیے، جو صاحب کھڑکی کے پاس بیٹھے ہیں!"

ولدیرَف نے کھانسی کی، اور اُس کھڑکی کی جانب بڑھا۔ وہاں ایک سبز میز تھی، جس پر چھوٹے چھوٹے دھبے ایسے بکھرے تھے جیسے کسی کو چیچک نکل آئی ہو۔ اسی میز پر ایک نوجوان بیٹھا تھا، جس کے سر کے بال چار سمتوں میں اُٹھے ہوئے تھے، ناک لمبی اور دانے دار تھی، اور پرانی، ماند پڑی وردی پہنے ہوئے تھا۔ وہ گردن جھکائے، اپنی لمبی ناک کو کاغذات میں گھسائے، کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔

ایک مکھی اُس کی ناک کے نتھنے کے قریب چل پھر رہی تھی، اور وہ بار بار اپنا نچلا ہونٹ باہر نکال کر ناک کے نیچے پھونک مارتا، جس سے اُس کے چہرے پر تھکن اور کوفت کا عجیب نقش ابھرتا تھا۔

"کیا میں اپنے مقدمے کے بارے میں یہاں دریافت کر سکتا ہوں... آپ سے؟ میرا نام ولدیرف ہے، اور ہاں، مجھے کونسل کی دو مارچ کی قرارداد کی نقل بھی درکار ہے۔"

کلرک نے قلم دوات میں ڈبویا اور دیکھا کہ کہیں زیادہ سیاہی تو نہیں لگ گئی۔ جب مطمئن ہوا کہ قلم دھبہ نہیں ڈالے گا، تو پھر سے لکھنے میں مشغول ہو گیا۔ اُس نے نچلا ہونٹ باہر نکال رکھا تھا، مگر اب ناک کے نیچے پھونکنے کی ضرورت نہ رہی، کیونکہ مکھی اُس کے کان پر جا بیٹھی تھی۔

"کیا یہاں دریافت کی جا سکتی ہے؟" ولدیرف نے ایک منٹ بعد پھر دہرایا، "میرا نام ولدیرف ہے، میں ایک زمین دار ہوں..."

"ایوان الیکسیئچ!" کلرک نے ہوا میں پکارا گویا ولدیرف کو دیکھا ہی نہ ہو، "یالی کوف تاجر آئے تو کہہ دینا کہ شکایت کی نقل پر دستخط کریں! میں اسے ہزار بار کہہ چکا ہوں!"

"میں شہزادی گوگولین کے وارثوں سے متعلق مقدمے کے سلسلے میں آیا ہوں،" ولدیرف نے ہلکے لہجے میں کہا، "یہ مقدمہ مشہور ہے۔ میں دست بستہ درخواست کرتا ہوں کہ میری بات سنی جائے۔"

کلرک نے ولدیرف کی موجودگی اب بھی محسوس نہ کی۔ اُس نے لب پر بیٹھی مکھی کو پکڑا، غور سے اُسے دیکھا اور پھینک دیا۔ دیہاتی رئیس نے زور سے کھانسا اور چیک دار رومال سے ناک صاف کی، مگر یہ بھی بے سود رہا۔ دو منٹ تک سکوت چھایا رہا۔ ولدیرف نے جیب سے ایک روبل کا نوٹ نکالا اور کھلی کتاب پر رکھ دیا۔ کلرک نے پیشانی سکیڑی، کتاب کو اپنی طرف کھینچا، اور اُسے بند کر دیا۔

"ذرا سی تحقیق ہے... مجھے صرف یہ معلوم کرنا ہے کہ شہزادی گوگولین کے وارثوں کے خلاف مقدمے کی بنیاد کیا ہے... کیا میں آپ کو زحمت دے سکتا ہوں؟"

کلرک، خیالات میں گم، اٹھا اور کہنی کھجاتا ہوا الماری کی طرف گیا۔ ایک منٹ بعد لوٹا اور کتاب میں دوبارہ غرق ہو گیا۔ اب کتاب پر دوسرا روبل نوٹ رکھا تھا۔

"محض ایک منٹ کی زحمت ہے... صرف دریافت ہی تو کرنی ہے۔"

کلرک نے کچھ نہ سنا۔ وہ کچھ نقل کر رہا تھا۔

ولدیرف نے نااُمیدی سے بھری نگاہ اُن سارے لکھنے والوں پر ڈالی۔

"لکھتے جا رہے ہیں!" اُس نے آہ بھر کر سوچا۔ "لکھتے جا رہے ہیں، شیطان لے جائے ان سب کو!"

وہ میز سے ہٹ کر کمرے کے بیچ جا کھڑا ہوا، ہاتھ بیکار سے جھولتے رہے۔ چپراسی جو پھر شیشے لیے گزر رہا تھا، شاید اُس کے بے بس چہرے کو دیکھ کر قریب آیا اور آہستہ سے پوچھا:

"تو... کچھ پوچھا آپ نے؟"

"پوچھا تو ہے، مگر وہ بولتا ہی نہیں۔"

"تین روبل دے دیجیے،" چپراسی نے سرگوشی کی۔

"دو تو دے چکا ہوں۔"

"ایک اور دے دیجیے۔"

ولدیرف پھر میز پر آیا اور ایک سبز نوٹ کھلی کتاب پر رکھ دیا۔

کلرک نے کتاب اپنی طرف کھینچی، اور ورق پلٹنے لگا۔ یکایک، جیسے کسی اتفاقیہ لمحے میں، اُس نے نظریں اٹھائیں اور ولدیرف کو دیکھا۔ اُس کی ناک چمکنے لگی، سرخ ہوئی اور ایک چالاک سی مسکراہٹ میں سمٹ گئی۔

"ہاں... کیا ارشاد ہے؟" اُس نے پوچھا۔

"میں اپنے مقدمے کے متعلق دریافت کرنا چاہتا ہوں... میرا نام ولدیرف ہے۔"

"بہت اچھا! گوگولین والا مقدمہ ہے ناں؟ خوب! تو مسئلہ کیا ہے؟"

ولدیرف نے تفصیل بیان کی۔

کلرک ایسا متحرک ہو گیا جیسے کسی طوفان میں گھوم گیا ہو۔ اُس نے مطلوبہ معلومات فراہم کی، نقل تیار کروانے کا بندوبست کیا، وولدیرف کو کرسی پیش کی — یہ سب ایک لمحے میں ہو گیا۔ اُس نے موسم کی بابت گفتگو بھی کی اور فصلوں کا حال پوچھا۔ اور جب ولدیرف جانے لگا تو اُس کے ساتھ سیڑھیاں تک آیا، خوش مزاجی سے مسکراتا ہوا، اور ایسے ادب سے پیش آیا جیسے ابھی زمین پر گر کر سجدہ کر دے گا۔

ولدیرف کو کسی نامعلوم وجہ سے جھجک محسوس ہوئی، اور ایک اندرونی جذبے کے تحت اُس نے ایک روبل اور نکال کر کلرک کو دیا۔ کلرک نے، جیسے کوئی شعبدہ باز ہو، وہ روبل یوں لیا جیسے وہ ہوا میں چمک کر اُڑ گیا ہو۔

"عجب لوگ ہیں!" دیہاتی رئیس نے سوچا جب وہ سڑک پر نکلا، اور پھر رومال سے ماتھا پونچھنے لگا۔


(انگریزی میں: An Inquiry)
✦ اصل مصنف:  Anton Chekhov
✦ انگریزی ترجمہ:  Constance Garnett
✦ اردو ترجمہ:  Sayer Shabir Wani 

No comments:

Post a Comment