"Ruh-Navesht— Writings of Soul

Full width home advertisement

نفع و نقصان ( A short story )

نفع و نقصان ( A short story )


بنگالی ادب سے ماخوذ—اردو میں ترجمہ و تحریر: ثائر شبير واني

اصل مصنف :  رابندر ناتھ ٹیگور

نفع و نقصان

جب پانچ بیٹوں کے بعد اُس گھر میں ایک بیٹی پیدا ہوئی، تو گویا خوشی نے پہلی بار دھیرے سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ ماں باپ نے اُس کے لیے ایک ایسا نام چنا، جو اُس خاندان کے مروجہ ناموں سے کوسوں دُور تھانروپما۔
یہ نام محض آواز کا جوڑ نہیں تھا، بلکہ ایک امید، ایک آرزو، ایک دعا تھی—کہ شاید یہ بچی، جو دیر سے آئی مگر دل میں گھر کر گئی، واقعی بے مثال ہو۔

گھر میں اب یہ بات زیرِ بحث آنے لگی کہ نروپما کے لیے کیسا رشتہ ہو۔ باپ، رام سندر متر، جو ایک شریف مگر تہی‌دست برہمن تھا، دن رات ایک کر کے مناسب داماد کی تلاش میں نکل پڑا۔ تلاش در تلاش، دِل سے پسند نہ آیا کوئی۔ مگر پھر قسمت نے ایک چمک دار شے ہاتھ میں تھما دی—ایک رائے بہادر کا اکلوتا بیٹا، جس کا خاندانی وقار اگرچہ بوسیدہ ہو چکا تھا، مگر اُس پرانے کنگن میں ابھی تک کچھ کھنک باقی تھی۔

رشتہ خوب تھا، مگر ساتھ ہی آیا جہیز کا مطالبہ—دس ہزار روپے نقد، اور اُس پر مزید تحائف کا ایک طومار۔ رام سندر نے پلک جھپکائے بغیر ہاں کر دی۔
کیا ایک بیٹی کی خوشی اور عزت ان رقومات سے کم ہو سکتی تھی؟

رقم کا انتظام مگر ایک خواب ہی رہا۔ زمین گروی رکھ دی، زیور بیچ دیا، دوستوں سے قرضہ لیا، آخرکار چار پانچ ہزار روپے جمع ہو سکے۔ باقی کی تگ و دو میں وقت نکل گیا، شادی کا دن آن پہنچا۔

ایک سودخور نے وعدہ کیا تھا کہ شادی والے دن باقی رقم دے دے گا—مگر وہ دن آیا اور سودخور نہ آیا۔
بارات دروازے پر تھی، خوشی کی رونق پل بھر میں سرد پڑ گئی۔ رائے بہادر بپھر گئے۔
"
جب تک پوری رقم نہ دی جائے، ہمارا بیٹا اس دروازے پر قدم نہیں رکھے گا۔"

رام سندر، جو ایک باپ ہی نہیں، ایک مفلس عاشقِ عزت بھی تھا، اُن کے قدموں میں گر پڑا۔
"
بس آج کی شادی ہو جائے، باقی رقم جان پر کھیل کر ادا کر دوں گا!"
مگر رائے بہادر کا غرور ایک قیمتی سودا بن چکا تھا۔

اندر عورتیں بین کر رہی تھیں، مہندی سے سجی نروپما چپ چاپ، ایک مجسمہ بنی بیٹھی تھی۔ اُس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں، مگر دل حیرت سے خالی۔ جو ہونے جا رہا تھا، وہ کوئی خواب نہیں تھا، بلکہ ایک سودے کی دستاویز تھی۔

تب یکایک کچھ ہوا—ایک باغی آواز ابھری۔
دولہا نے، جسے شاید اب تک ایک مہرہ سمجھا گیا تھا، باپ کے خلاف اعلانِ بغاوت کر دیا۔
"
یہ شادی میرے ارادے سے ہے، کسی سودے بازی سے نہیں۔ میں شادی کرنے آیا ہوں اور کر کے رہوں گا۔"

بوڑھے رائے بہادر نے چاروں طرف دیکھا، جیسے کوئی پرانا بھگت کسی بت کے ٹوٹنے پر ماتم کرے۔
"
یہی انجام ہے نئی تعلیم کا!" اُنہوں نے کہا۔
"
نہ دھرم رہا، نہ شرم!" بزرگوں نے سر ہلایا۔

شادی تو ہو گئی، مگر اُس میں کوئی راگ، کوئی روشنی، کوئی رونق نہ تھی۔ باراتیوں کے چہروں پر بھی جیسے دھواں پھیلا ہوا ہو۔
نروپما جب رخصت ہو کر سسرال کو روانہ ہوئی، تو رام سندر نے اُسے گلے لگا کر کہا:
"
میں آؤں گا، بیٹی۔ میں خود لے جاؤں گا تمہیں۔"

لیکن وہ جو جانے کا دن تھا، وہی گویا جدائی کا آغاز بن گیا۔

رام سندر اکثر اپنی بیٹی سے ملنے جاتا، مگر اُس گھر میں اُس کی حیثیت ایک کم تر مہمان سے زیادہ نہ تھی۔ نوکر طعنہ زن، سسرالی بے رحم، اور خود نروپما کسی گمنام قید کی اسیر۔
کبھی کبھار پانچ منٹ کو ملاقات ملتی، کبھی وہ بھی نہیں۔

ادھر نروپما کے لیے وہ گھر ایک دربار نہ رہا، ایک قید خانہ بن گیا تھا۔ ساس کی زبان تیر سے بڑھ کر تھی، کپڑوں اور کھانے کا انتظام ذلت سے مشروط تھا۔ اگر کسی نے نرمی سے تعریف کر دی، تو فوراً آواز آتی:
"
خاندان جیسا، ویسی ہی شکل۔"

یہ طعنہ جیسے ایک مسلسل چیخ تھی جو نروپما کے دن رات کا سکون چاٹنے لگی۔
باپ تک یہ خبر پہنچی، اور وہ تڑپ اٹھا۔
ایک ہی حل تھا—گھر بیچ کر رقم چکانا۔ مگر بیٹوں کو وہ یہ راز نہ دینا چاہتا تھا۔ اُس نے سوچا کہ مکان فروخت کر کے پھر کرائے پر لے لے گا، تاکہ بچے اُس کی موت کے بعد ہی حقیقت جانیں۔

مگر تقدیر کی دیواروں میں شگاف تھا۔ بیٹوں کو خبر ہو گئی۔ تین بڑے بیٹوں نے، جن کے اپنے چھوٹے چھوٹے آنگن آباد ہو چکے تھے، آ کر زبردست مخالفت کی۔
سودا ٹوٹ گیا۔

اب رام سندر چھوٹے چھوٹے قرضوں میں جھکنے لگا، ہر طرف سے سود در سود کا بوجھ اُس کے کندھوں پر چڑھتا گیا، یہاں تک کہ گھر کی روٹی کے لالے پڑنے لگے۔

نروپما نے اپنے والد کے چہرے کے تاثرات سے سب کچھ بھانپ لیا۔
بوڑھے کی سپید ہوتی ہوئی زلفیں، زرد چہرہ، اور مستقل جھکی ہوئی ہیئت—یہ سب غربت و پریشانی کا پتہ دیتے تھے۔
جب کوئی باپ خود اپنی بیٹی کے سامنے شرمندہ ہو جائے، تو وہ اندر کا گناہ کبھی چھپا نہیں سکتا۔

جب کبھی رام سندر کو چند لمحوں کے لیے بیٹی سے بات کرنے کی اجازت ملتی، تو اُس کی مسکراہٹ میں بھی ایک شکستہ دل کی بازگشت صاف جھلکتی۔

نروپما کا جی چاہتا تھا کہ چند دن کے لیے اپنے باپ کے گھر واپس جائے، تاکہ اُسے کچھ تسلّی دے سکے۔
اس کا اُداس چہرہ آنکھوں کے سامنے رہتا، اور اُس سے دُور رہنا ناقابلِ برداشت ہو جاتا۔

ایک دن اُس نے نرمی سے کہا:
"
ابا، مجھے چند روز کے لیے گھر لے چلیے۔"

رام سندر نے کہا:
"
اچھا بیٹی، ضرور۔"

مگر یہ کہنا اُس کی مجبوری تھی، اختیار اُس کے پاس نہ تھا۔
بیٹی پر باپ کے جو فطری حقوق ہوتے ہیں، وہ تو گویا جہیز کے بدلے گروی رکھ دیے گئے تھے۔
بیٹی کی ایک جھلک پانے کے لیے بھی اُسے منت سماجت کرنی پڑتی، اور اگر کبھی اجازت نہ ملتی، تو دوبارہ زبان کھولنے کی بھی مجال نہ ہوتی۔

مگر جب بیٹی خود واپسی کی خواہش کرے، تو باپ کیسے انکار کر سکتا ہے؟

یہ داستان بہتر ہے کہ نہ بیان کی جائے کہ رام سندر نے وہ تین ہزار روپے اکٹھے کرنے کے لیے کس کس قسم کی ذلّت، شرمندگی اور دلی اذیت برداشت کی، تاکہ اپنے داماد کے والد کے سامنے کچھ درخواست کی جا سکے۔

جب روپے جمع ہو گئے، تو اُس نے اُن نوٹوں کو اپنے چادر کے کونے میں باندھ کر روانگی کی۔
جب رائے بہادر کے پاس پہنچا، تو ابتدا روزمرّہ کی باتوں سے کی۔
علاقے کی خبریں سنائیں، ہری کرشن کے گھر ہونے والی ایک جری چوری کا قصّہ بڑے مزے لے کر بیان کیا۔
نوبن مادھو اور رادھا مادھو کے اوصاف اور عادات کا موازنہ کیا، نوبن مادھو پر تنقید کی، اور رادھا مادھو کی خوب تعریفیں کیں۔

پھر شہر میں پھیلتی ایک نئی بیماری کا ایسا ہولناک نقشہ کھینچا کہ سامع کے بھی رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔

آخرکار، حقّہ ایک طرف رکھ کر، یوں ہی جیسے باتوں باتوں میں، بولا:
"
ہاں ہاں بھائی صاحب، ابھی کچھ رقم واجب الادا ہے، مجھے معلوم ہے۔ روز نیت کرتا ہوں کہ کچھ لے کر آؤں، مگر پھر بھول جاتا ہوں۔ آخر بڑھاپا بھی تو ہے، دوست!"

یہ لمبی تمہید باندھنے کے بعد اُس نے آہستہ سے تین نوٹ نکالے—گویا وہ اُس کے سینے کی تین پسلیاں ہوں۔

رائے بہادر ان نوٹوں کو دیکھ کر ہنسی میں پھٹ پڑا، ایک بھدی اور تمسخر آمیز قہقہہ۔

"یہ تو میرے کسی کام کے نہیں"، اُس نے کہا۔
اور ساتھ ہی ایک معروف محاورہ بول کر یہ بھی جتا دیا کہ "ناحق ہاتھ گندے کرنے سے پرہیز بہتر ہے۔"

اب نروپما کو گھر لے جانے کی بات چھیڑنا گویا ایک ناممکن خواہش بن گئی تھی۔
رام سندر دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ آخر یہ تہذیب و مروّت کا خیال رکھ کر بھی وہ کر کیا رہا ہے؟

بہت دیر تک دِل گرفتہ خاموشی میں بیٹھا رہا۔ پھر آہستگی سے وہ بات کہی جس کے لیے آیا تھا۔

رائے بہادر نے بے نیازی سے کہا:
"
ابھی نہیں۔"

نہ کوئی وجہ بتائی، نہ کوئی تاخیر کی وضاحت۔
بس یہ کہہ کر اُٹھا اور اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔

 

رام سندر کی نگاہیں اپنی بیٹی کا سامنا کرنے کی تاب نہ لا سکیں۔
ہاتھ لرز رہے تھے، دل بوجھل تھا۔ اس نے وہی تین نوٹ پھر سے چادر کے کونے میں باندھے اور خاموشی سے گھر کی راہ لی۔

دل میں ایک پختہ عہد کر لیا—جب تک پوری رقم ادا نہ کر لوں، رائے بہادر کے آنگن میں قدم نہ رکھوں گا۔
نروپما کا حق میں اُسی وقت دل سے ادا کر سکوں گا جب میری پیشانی قرض کی گرد سے پاک ہو گی۔

مہینے گزرتے چلے گئے۔
نروپما نے ایک کے بعد دوسرا قاصد بھیجا، مگر باپ کبھی نہ آیا۔
بالآخر اُس نے بھی خفا ہو کر پیغام بھیجنا بند کر دیے۔

رام سندر اس لاج میں تڑپتا رہا، مگر اپنے عہد سے پیچھے نہ ہٹا۔

ماہِ آشوِن آ پہنچا۔
رام سندر نے دل ہی دل میں قسم کھائی:
"
اس برس پوجا پر نروپما کو ضرور لے جاؤں گا۔ ورنہ۔۔۔"

پوجا کے پندرھویں میں پانچویں یا چھٹے دن، اس نے چند نوٹ چادر کے پلو میں باندھے اور نکلنے کو تیار ہوا۔

اُس کا پانچ برس کا پوتا لپک کر آیا اور بولا:
"
دادا، کیا آج آپ میرے لیے گاڑی خریدنے جا رہے ہیں؟"
کئی ہفتوں سے اُس بچے کا دل ایک چھوٹی گاڑی کے لیے مچل رہا تھا، مگر گھر کی حالت ایسی نہ تھی کہ خواہش پوری ہو سکتی۔

پھر چھ برس کی پوتی آئی، آنکھوں میں آنسو، اور کہنے لگی:
"
دادا، پوجا کے لیے میرے پاس کوئی اچھا کپڑا نہیں!"

رام سندر جانتا تھا، اور کب سے یہ خیال دل میں لیے بیٹھا تھا۔
حقّہ سلگاتے سلگاتے اُس نے کئی بار یہ سوچا تھا کہ اُس کے گھر کی عورتیں پوجا کے دن رائے بہادر کے آنگن میں جیسے خیرات کی مستحق ہوں گی—میلے کپڑوں میں، پرانے زیورات کے ساتھ۔
یہ خیال اُس کی پیشانی کی جھریوں میں ایک اور گہرا شگاف چھوڑ جاتا تھا۔

غربت کی ان سسکیوں کو دل میں دبائے، وہ رائے بہادر کے دروازے پر جا پہنچا۔
مگر آج اُس کی چال میں نہ وہ پرانی جھجک تھی، نہ دربانوں کے سامنے جھکی ہوئی گردن، نہ نظریں چرائے ہوئے قدم
گویا یہ اُس کا اپنا ہی گھر ہو۔

بتایا گیا کہ رائے بہادر کہیں باہر گئے ہیں، کچھ دیر انتظار کرنا ہو گا۔
مگر رام سندر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا۔
نروپما کو دیکھتے ہی اُس کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو بہنے لگے۔
باپ اور بیٹی ایک دوسرے کے گلے لگ کر دیر تک روتے رہے، اور کچھ کہہ نہ سکے۔

آخرکار رام سندر نے دھیرے سے کہا:
"
اس بار، بیٹی، تجھے ضرور لے جاؤں گا۔ اب مجھے کوئی روک نہیں سکتا۔"

اچانک دروازہ دھڑ سے کھلا۔
رام سندر کا سب سے بڑا بیٹا، ہرا موہن، دو چھوٹے بیٹوں کو ساتھ لیے کمرے میں داخل ہوا۔
چیخ کر بولا:
"
ابّا، کیا واقعی آپ نے ہمیں سڑک پر لا کھڑا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے؟"

رام سندر کا خون کھول اٹھا:
"
کیا تمہارے واسطے میں اپنے آپ کو دوزخ کے حوالے کر دوں؟
کیا مجھے نیکی کا کوئی حق نہیں؟"

اس نے اپنا مکان بیچ دیا تھا—انتہائی احتیاط سے یہ بات بیٹوں سے چھپائی تھی، مگر اب صدمے اور غصے سے معلوم ہوا کہ راز فاش ہو چکا ہے۔

اسی لمحے اس کا چھوٹا پوتا اُس کے گھٹنوں سے لپٹ گیا، اور معصوم نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا:
"
دادا، کیا آپ نے وہ گاڑی نہیں خریدی؟"

اور جب اُسے خاموش و شکست خوردہ پایا، تو وہ بچہ نروپما کے پاس گیا،
اور معصومیت سے کہا:
"
پھوپھی، کیا آپ میرے لیے گاڑی خرید دیں گی؟"

نروپما نے ساری صورتِ حال کو سمجھنے میں ذرّہ برابر دیر نہ کی۔
"
ابا جی!" اُس نے کہا، "اگر آپ نے میرے سسرال والوں کو ایک پیسہ بھی دیا، تو میں قسم کھا کر کہتی ہوں کہ آپ مجھے دوبارہ کبھی نہیں دیکھیں گے۔"

رام سندر کا دل دہل گیا، "یہ کیا کہہ رہی ہو بیٹی؟ اگر میں رقم نہ دوں تو میری ناک کٹ جائے گی، اور یہ رسوائی تم پر بھی آئے گی۔"

نروپما نے پرعزم لہجے میں کہا، "اور اگر آپ نے رقم دے دی، تو ذلت اور بھی بڑھ جائے گی۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میری کوئی عزت نہیں؟ کیا میں صرف پیسوں کی تھیلی ہوں؟ جتنا بھر دو، اتنی قیمتی ہو جاؤں؟ نہیں ابا جی، مجھے اس طرح رسوا مت کیجیے۔ میرے شوہر کو بھی یہ رقم منظور نہیں۔"

رام سندر نے بے بسی سے کہا، "لیکن پھر وہ لوگ تمہیں مجھے ملنے نہیں دیں گے۔"

نروپما نے سختی سے کہا، "یہ برداشت کرنا ہوگا۔ خدا کے لیے مجھے واپس بلانے کی کوشش مت کیجیے۔"

رام سندر نے کپکپاتے ہاتھوں سے اپنی چادر کو، جس میں رقم بندھی تھی، دوبارہ اپنے شانوں پر ڈالا اور چوروں کی طرح دبے پاؤں گھر سے نکل گیا، کہ کوئی اسے دیکھ نہ لے۔

مگر یہ راز چھپا نہ رہ سکا۔ کسی چوکنے نوکر نے، جو دروازوں کے پیچھے سننے کا ماہر تھا، یہ خبر نروپما کی ساس تک پہنچا دی۔ اور پھر اُس کے دل میں جو نفرت سلگ رہی تھی، وہ اب دہکتے انگاروں میں بدل گئی۔ گھر اس کے لیے کانٹوں کی سیج بن گیا۔

نروپما کا شوہر شادی کے کچھ ہی دن بعد نائب مجسٹریٹ بن کر دوسرے شہر جا چکا تھا۔ سسرال والوں نے یہ بہانہ بنایا کہ نروپما اپنے میکے سے خراب ہو جائے گی، اور اُس کے عزیز و اقارب سے ملنے پر پوری طرح پابندی لگا دی گئی۔

رفتہ رفتہ نروپما واقعی بیمار ہو گئی۔ مگر اس میں ساری غلطی اُس کی ساس کی بھی نہ تھی؛ نروپما نے خود بھی اپنی صحت کو بُری طرح نظر انداز کیا تھا۔ خنک خزاں کی راتوں میں وہ کھلے دروازے کے قریب لیٹی رہتی، اور جاڑوں میں کوئی اضافی کپڑا نہ پہنتی۔ کھانے پینے میں بے قاعدگی برتی جاتی۔ اکثر نوکر کھانا دینا بھول جاتے اور وہ چپ چاپ بھوکی رہتی۔ اس نے دل میں یہ یقین بٹھا لیا تھا کہ وہ اس گھر کی خادمہ ہے، اور مالک و مالکن کی مہربانی پر زندہ ہے۔

مگر اس عاجزی نے بھی اُس کی ساس کے دل کو نرم نہ کیا۔ اگر نروپما بھوک سے کچھ بھی نہ کھاتی، تو ساس طنز کرتی، "ارے واہ! شہزادی صاحبہ ہیں! غریب خانے کا کھانا پسند نہیں آتا!"
یا پھر طعنہ دیتی، "ذرا دیکھو تو! یہ حسن کی مورت! دن بہ دن کوئلے کا ٹکڑا بنتی جا رہی ہے۔"

جب بیماری حد سے بڑھ گئی تو ساس بولی، "سب دکھاوا ہے۔"
آخر ایک دن، نیروپما نے عاجزی سے کہا:
"
ماں جی، بس ایک بار اپنے ابّا اور بھائیوں کو دیکھ لوں۔"
ساس نے تیکھے لہجے میں جواب دیا، "سب بہانہ ہے، باپ کے گھر جانے کی چال ہے!"

یقین کرنا مشکل ہے، مگر یہی سچ ہے کہ جس شام نیروپما کا سانس اکھڑنے لگا، اسی شام پہلی بار حکیم کو بلایا گیا—اور وہی اس کا آخری دیدار ثابت ہوا۔

اس گھر کی بڑی بہو کچھ روز قبل گزر چکی تھی، اور اس کی رسومات میں خوب دھوم دھام ہوئی تھی۔ رائے چودھری خاندان اپنے شاندار درگا پوجا اور دیوی وسرجن کے لیے مشہور تھا، مگر رائے بہادر کے گھرانے کو نیروپما کی چتا نے مشہور کر دیا۔

صندل کی لکڑی سے ایسی شاندار چتا جلائی گئی کہ ضلع بھر میں چرچا ہو گیا۔
"
بس وہی لوگ ایسا انتظام کر سکتے تھے!" لوگ کہتے۔
سنا گیا کہ اس شان و شوکت نے خاندان کو قرض میں بھی ڈال دیا۔

تعزیت کرنے والے جب رام سندر کے پاس آتے تو بیٹی کی موت کی عظمت کے قصے سناتے۔
"
کیا رخصتی ہوئی ہے بابو جی، نصیب والی تھی بیٹی!"

اتنے میں ڈپٹی مجسٹریٹ داماد کا خط آیا:
"
میں یہاں سب انتظام کر چکا ہوں، براہِ کرم میری بیوی کو فوراً روانہ کریں۔"

جواب میں اس کی ماں نے خط لکھا:

"پیارے بیٹے، ہم نے تمہارے لیے دوسری لڑکی دیکھ لی ہے، چھٹی لو اور جلد گھر آ جاؤ۔"

اور اس بار جہیز کی رقم تھی—بیس ہزار روپے نقد!

 

No comments:

Post a Comment