اَنس بن مالکؓ
— وہ ننھا گلاب جسے مدینے کی ہوا نے کھلنے سے پہلے ہی نبیِّ رحمت ﷺ کے قدموں میں رکھ دیا۔
اُمِّ سلیمؓ، غمیصاء، نے اس کے لبوں پر شہادتین کا نغمہ رکھ دیا، اور دل کے نازک پھول میں محمد ﷺ کی محبت کا بیج بو دیا۔ کان نے نام سنا اور دل اسیر ہوا۔ کبھی کبھی سماعت وہ کر جاتی ہے جو آنکھ بھی نہ کرے۔
وہ نوخیز بارہا آرزو میں ڈوبا: کاش مکہ کی راہ لے اور محبوبِ خدا ﷺ کو دیکھے، یا یہ کہ مدینہ کی گلیوں پر وہ جمال اُتر آئے اور دیدار کا چراغ جل اُٹھے۔
پھر وہ ساعت آئی جب یثرب کی فضائیں سرگوشی کرنے لگیں:
"وہ آ رہے ہیں… وہ آ رہے ہیں…"
ہر دل میں بہار، ہر گھر میں چراغ۔ آنکھیں راستے سے جُڑ گئیں جہاں دو مبارک قدم پڑنے والے تھے۔ بچے ہر صبح صدا لگاتے:
"محمد ﷺ آ گئے!"
انسؓ بھی اُن میں دوڑتا، مگر حسرت لے کر پلٹ آتا کہ ابھی جلوہ نصیب نہ ہوا۔
پھر ایک دن زمین نے نوید دی: "وہ قریب ہیں!" مدینہ کے مرد قافلوں کی طرح دوڑے، اور بچوں کے ریلے خوشی میں لرزتے ساتھ بہے۔ ان صفِ اوّل کے ننھے مسافروں میں انسؓ بھی تھا۔
رسولِ اکرم ﷺ جلوہ گر ہوئے، صدیقؓ ہمراہ۔ فضائیں گویا مِسک بن گئیں۔ مستورات نے چھتوں سے جھانکا، اور حیرانی میں کہا:
"اَیُّھُم ھُو؟ وہ کون ہیں؟ وہ کون ہیں؟"
وہ دن انسؓ کی روح پر ایسا ثبت ہوا کہ صدی سے زیادہ کی عمر میں بھی آنکھوں کی نمی میں تازہ رہا۔
جب نبیِّ کریم ﷺ مدینہ میں ٹھہرے تو اُمِّ سلیمؓ اپنے ننھے انسؓ کو لے کر حاضر ہوئیں۔ چھوٹی سی قامت، دو لٹیں پیشانی پر لرزتی، ماں کے آگے آگے۔ کہا:
"یا رسولَ اللہ! ہر انصاری نے آپ کی خدمت میں ہدیہ دیا، میرے پاس کچھ نہیں مگر میرا یہ بیٹا۔ اِسے قبول فرمائیے، یہ آپ کا غلام ہے۔"
رحمتِ عالم ﷺ مسکرائے، دستِ کرم اُس کے سر پر رکھا، لٹوں کو چھوا، اور اُسے اپنی آغوشِ نور میں لے لیا۔
اسی لمحے دس سالہ انسؓ کی زندگی رسولِ رحمت ﷺ کی خدمت کا باب کھول گئی۔ دس برس وہ اس آفتاب کے سائے میں رہے جس کی گرمی پتھروں کو نرم کر دیتی تھی۔
انسؓ کہتے ہیں:
"میں نے دس برس خدمت کی، کبھی نہ کہا: یہ کیوں کیا؟ کبھی نہ پوچھا: یہ کیوں نہ کیا؟ ایک دن کسی کام پر بھیجا، میں بچوں کے ساتھ کھیلنے لگ گیا۔ اچانک پیچھے سے کسی نے دامن تھاما۔ پلٹا تو مسکراہٹ تھی۔ فرمایا: 'اُنَیس! وہ کام کیا جو کہا تھا؟'"
کبھی محبت سے "اُنَیس" کہتے، کبھی "یَا بُنَیّ"۔ فرمایا:
"اے بیٹے! اگر صبح و شام یہ کر سکو کہ دل میں کسی کے لیے کینہ نہ ہو تو کر لو۔ یہ میری سنت ہے، اور جو سنت زندہ کرے وہ مجھ سے محبت کرتا ہے، اور جو مجھ سے محبت کرے گا وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔"
ایک دن دعا دی:
"اے اللہ! اسے مال دے، اولاد دے، اور برکت عطا فرما۔"
یہ دعا زمین پر یوں اُتری کہ انسؓ مال و اولاد میں سب انصار سے آگے ہوئے۔ نسل اتنی بڑھی کہ سو سے زیادہ پوتے پڑپوتے دیکھے۔ عمر بھی سو برس سے آگے نکلی۔
اکثر کہتے:
"دو دن کبھی نہیں بھول سکتا۔ پہلا دن جب آپ ﷺ مدینہ آئے، مدینہ جگمگا اُٹھا۔ دوسرا دن جب آپ ﷺ گئے، سب کچھ بجھ سا گیا۔"
آخری لمحے کہا:
"مجھے پڑھاؤ: لا الہ الا اللہ، محمد رسول اللہ۔"
یہ کلمہ لبوں پر تھا جب روح پرواز کر گئی۔ وصیت کی کہ نبی ﷺ کی وہ چھوٹی سی لکڑی جو اُن کے پاس تھی، میرے ساتھ دفن کرنا۔
انسؓ… وہ بچپن کا گلاب، وہ خدمت کا چراغ۔ ماں نے اپنی گود کا سب سے قیمتی موتی رسولِ خدا ﷺ کے قدموں میں رکھ دیا۔
ہزاروں سلام اُس پر، اور لاکھوں سلام اُس ماں پر جس نے محبت کا نذرانہ یوں دیا کہ تاریخ ہمیشہ کے لیے معطر ہو گئی۔
آپ کی تحریر صرف پڈھی نہیں جاتی ۔ محسوس کی جاتی ہے ۔
ReplyDeleteآپ کی تحریر دل کی زمین پر نرمی سے برستی بارش کی مانند ہے، جو سوچوں کو سیراب بھی کرتی ہے اور جذبوں کو جگاتی بھی ہے۔ واقعی، آپ کا قلم سچائی اور احساس کا حسین امتزاج ہے الله تعالى آپ کے قلم کو مزید تاثیر عطا فرمائے
ReplyDelete