"Ruh-Navesht— Writings of Soul

Full width home advertisement

قافلۂ جاں بلب ( غزہ )

قافلۂ جاں بلب   (  غزہ  )

 قافلۂ جاں بلب


 اے صفحۂ ایام! اپنے سیاہ اوراق پر وہ سطور بھی کندہ کر، جو خون کی روشنائی اور بھوک کے آنسوؤں سے لکھی گئیں۔ تاریخ کے سینے میں آج ایک ایسا باب کھل رہا ہے، جس میں زمین اپنے باسیوں سے کہہ رہی ہے:

"میں نے کئی طوفان دیکھے، مگر ایسا زلزلہ نہیں، جس میں انسانیت اپنی ہی قبر کھودے۔"

غزہ — وہی خاکِ مقدس، جہاں کبھی انبیاء کے قافلے رکے تھے، آج وہاں کی گلیاں انسانیت کی موت کی گواہ ہیں۔ یہاں انسان زندہ نہیں، بلکہ ہڈیوں کے ڈھانچے ہیں، جو سانس لیتے ہیں مگر زیست کا چراغ گل ہو چکا ہے۔ یہ لوگ نہیں، یہ چلتی ہوئی لاشیں ہیں، جو بھوک کے کرب میں زندگی اور موت کے درمیان ایک لٹکتے ہوئے پل پر کھڑی ہیں۔



یہ زخم کسی قحط کے نہیں، یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کی داغ بیل ہیں۔ یہ زمین اور پانی کا مسئلہ نہیں، یہ ایک قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی صیہونی وحشت ہے۔ اس ظلم کی بنیاد میں وہی سامراجی ذہن ہے، جس نے ہر دور میں کمزور کو مٹا کر اپنی سلطنت قائم کی۔ مگر یہاں زمین کی سیاہی اور بچوں کی ہڈیاں اس وحشت کو ہمیشہ کے لیے عیاں کر دیں گی۔

اے مسلم دنیا کے امراء و حکام! تمہاری خاموشی ان بچوں کے پیٹ پر پڑے پتھروں کی مانند سخت ہے۔ تمہارے محلات کی چھتیں ان ماؤں کی آہوں سے زیادہ مضبوط نہیں۔ اور اے دنیا کے باقی انسانو! تمہارے انسانی حقوق کے نعروں پر یہ خون سوالیہ نشان بن کے بہے گا۔ تمہارے ایوانوں کی شیشے کی دیواریں ان خشک ہونٹوں کے زلزلے سے لرزیں گی، جو پانی کے ایک قطرے کے لیے مر گئے۔

یہ لاشیں صرف غزہ کی گلیوں میں نہیں چل رہیں، یہ پوری انسانیت کے دل کے اندر چلتی ہیں، ہمیں آئینہ دکھاتی ہیں کہ ہم کتنے زندہ ہیں اور کتنے مردہ۔

ان چلتی ہوئی لاشوں کا ہر قدم اعلان ہے کہ آزادی بندوقوں اور توپوں سے زیادہ قوی ہے۔ وہ دنیا کو یہ پیغام دے رہی ہیں کہ اگر بھوک سے مرتے ہوئے بھی کوئی قافلہ آزادی کا نام لے، تو وہ تاریخ کا امرِ بالذات بن جاتا ہے۔

غزہ! وہ سرزمینِ مظلوماں، جس پر آج ظلمتیں سایہ فگن ہیں، جہاں افقِ حیات پر قحط و فاقہ کی سیاہ گھٹائیں چھا گئی ہیں۔ جہاں ہر طرف نوحہ و نالہ ہے، ہر گوشے سے آہوں کی بازگشت ہے، اور ہر دل فریاد کناں ہے۔


کیا تم نے کبھی اُن معصوم بچوں کو دیکھا ہے جو نوالے کو ترستے ہیں؟ جن کے لب خشک، آنکھیں بے نور، اور جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکے ہیں؟ مائیں اپنی ممتا کے آنچل میں بچوں کو چھپائے اُن کے آنسو پونچھ رہی ہیں، مگر ان کے دامن میں نہ دودھ ہے نہ دلاسہ۔


یہ وہ قوم ہے جس پر آسمان خاموش، زمین جامد، اور انسانیت بے حس ہو چکی ہے۔ غزہ کے بازار سنسان، گھروں میں راکھ، اور مسجدوں میں سجدوں کی جگہ سسکیاں ہیں۔

روٹی ایک خواب بن چکی ہے، پانی ایک نعمتِ نایاب، اور دوا ایک حسرت۔




عورتیں چولہوں کے بجھے وجود کو تکتی ہیں، جن پر نہ کوئی دیگ چڑھی، نہ کوئی ہانڈی اُتری۔ اُن کی آستینوں میں صبر ہے، مگر آنکھوں میں بےبسی کا سمندر۔





بچے، جو کھلونوں سے کھیلنے کے لیے پیدا ہوئے تھے، اب وہ گولوں اور بندوقوں کی آوازوں میں جی رہے ہیں۔ اُن کے لیے رات اندھیری نہیں، بلکہ ہر لمحہ قیامت کا سا ہے۔


اے اقوامِ عالم!

کیا تمہارے ضمیر سو گئے؟

کیا تمہاری عدالتیں صرف طاقتوروں کے لیے ہیں؟

کیا بھوک سے بلکتے ان بچوں کی چیخیں تمہاری کانوں تک نہیں پہنچتیں؟


غزہ میں بھوک، صرف پیٹ کی خلاء نہیں، بلکہ یہ انصاف کی عدم موجودگی کا نوحہ ہے۔ یہ انسانیت کے جنازے کی پہلی صف ہے۔

یہ سوال ہے اُس تہذیب پر، جو چاند پر کمندیں ڈالتی ہے، مگر انسان کو ایک روٹی نہ دے سکی۔


غزہ کا قحط ایک علاقائی مسئلہ نہیں، یہ پوری انسانیت کے لیے میزان ہے۔

یہ چلتی ہوئی لاشیں صرف فلسطینی نہیں، یہ ہمارے ایمان، ہمارے ضمیر اور ہمارے فلسفۂ آزادی کا امتحان ہیں۔
اگر ہم خاموش ہیں، تو یقین جانیے ہم سب بھی اسی قافلے کا حصہ ہیں — زندہ، مگر حقیقت میں مرے ہوئے۔

 ہم جو کلمۂ حق کے وارث ہیں،

ہم کیوں خاموش ہیں؟


آؤ کہ اپنے قلم کو خوں چکاں سیاہی میں ڈبو کر،

تاریخ کے اوراق پر لکھیں:

غزہ کی بھوک صرف اک سانحہ نہیں، بلکہ زمانے کی بےحسی پر فردِ جرم ہے۔


2 comments:

  1. یقیناً یہ تحریر دل دہلا دینے والی اور ضمیر جھنجھوڑ دینے والی ہے۔ بچوں کی چیخیں، انصاف کا گلا گھونٹنا، سب کچھ انسانیت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ یہ صرف فلسطین کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کا امتحان ہے۔

    ReplyDelete