"Ruh-Navesht— Writings of Soul

Full width home advertisement

" فن کا زوال"

" فن کا زوال"





بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں

شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا

حیدر علی آتش


زمانہ بدلتا ہے، زبانیں بدلتی ہیں، اور ان کے ساتھ اظہار کے اسالیب بھی۔ مگر جب تبدیلی فقط سطح پر ہو، اور اس کے پیچھے فکری گہرائی اور جمالیاتی شعور کا فقدان ہو، تو وہ تہذیب کا عروج نہیں بلکہ زوال کہلاتی ہے۔ اردو شاعری، جو کبھی دردِ دل کی شائستہ صدا تھی، جو شعور و وجدان کا آئینہ تھی، آج سوشل میڈیا کے فالوورز، ریچ، اور "واہ واہ" کی مصنوعی گونج میں گم ہوتی جا رہی ہے۔


شاعر کو مست کرتی ہے تعریف شعر امیرؔ

سو بوتلوں کا نشہ ہے اس واہ واہ میں

امیر مینائی


کبھی یہ شاعری میر کی آہِ نیم شب تھی، غالب کا تفکّر، اقبال کا پیغام، اور فیض کی بغاوت۔ مگر آج ایک نیا "شاعر" ابھرتا ہے—انسٹاگرام کی ریلز میں، فیس بک کی پوسٹوں میں، جہاں ہر دوسرا دل شکستہ نوجوان دو مصرعوں کو ہم قافیہ کر کے خود کو غالب کا ہم عصر سمجھ بیٹھتا ہے۔

یہ شاعری نہیں، قافیہ بازی ہے۔ یہ جذبات کی ترجمانی نہیں، اظہار کی عجلت ہے۔ اس میں نہ عروض کا سلیقہ ہے، نہ زبان کی لطافت، نہ معانی کی تہہ داری۔ فقط ردیف و قافیہ میں لپٹے ہوئے سادہ سے جملے جو کسی جذبے کو چھو بھی نہیں پاتے، مگر چونکہ "ریچ" اچھی ہے، تو شاعر کا غرور اور بھی بڑھتا ہے۔


سو شعر ایک جلسے میں کہتے تھے ہم امیرؔ

جب تک نہ شعر کہنے کا ہم کو شعور تھا

امیر مینائی


شاگرد اردو شاعری کبھی استاد سے علم حاصل کرتے تھے۔ شاگرد اپنے اشعار پر اصلاح لیتے، سیکھتے، سنوارتے، نکھارتے۔ اب استاد کی جگہ فالوورز نے لے لی ہے۔ ہر لائک ایک سند، ہر شیئر ایک تمغہ، اور ہر کمنٹ ایک خراجِ تحسین۔

سوال یہ نہیں کہ نوجوان شاعری کیوں کر رہے ہیں؛ سوال یہ ہے کہ وہ شاعری کو سمجھے بغیر کیوں کر رہے ہیں؟ کیا صرف دردِ دل سچا ہو تو شاعری کہلانے لگتی ہے؟ کیا صرف محبت میں ناکامی ہی شعر کہنے کی وجہ ہے؟ نہیں! شاعری فن ہے، صبر ہے، ریاضت ہے، اور سب سے بڑھ کر، جمالیاتی تربیت ہے۔ وہ آنکھ جو لفظ میں رنگ دیکھے، وہ دل جو حرف میں آہٹ سن لے، وہ ذہن جو زبان کی نزاکت کو محسوس کرے—تب جا کر شاعر پیدا ہوتا ہے۔

   

پانی لے سکتے ہیں دریا سے مگر کوزے میں ہم

بہتے دریا کی روانی بند کر سکتے نہیں


شعر یوں کہنے کو کہہ لیں لیکن اخترؔ سچ یہ ہے

دل کے محسوسات کو لفظوں میں بھر سکتے نہیں

اختر انصاری 

بدقسمتی سے آج کی سوشل میڈیا شاعری میں ان سب عناصر کی شدید کمی ہے۔ زبان کا بگاڑ، بے محل الفاظ، اور جذبات کا کچا پن شاعری کے قالب کو کمزور کر رہے ہیں۔ شاعری جو دل کی صدا تھی، اب سکرولنگ کا سامان بن چکی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی نسل کو صرف اظہار کا ہنر نہیں، بلکہ ادب کی نزاکت بھی سکھائی جائے۔ عروض کی الف ب سے روشناس کرایا جائے، زبان کی تہذیب سے محبت دلائی جائے، اور سب سے بڑھ کر، اس شعور سے آراستہ کیا جائے کہ شاعری محض جذبات کا اظہار نہیں بلکہ ایک فنی اور فکری ذمہ داری بھی ہے۔

شاعری اگر سطحی ہو جائے تو صرف فن نہیں، تہذیب بھی روٹھ جاتی ہے۔ اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ اردو شاعری کا وہی معیار، وہی گہرائی، اور وہی روشنی دوبارہ ابھرے، تو ہمیں "سوشل میڈیا شاعری" کے شور میں اصل شاعری کی خاموش، پر وقار صدا کو سننا اور سنانا ہوگا۔



No comments:

Post a Comment