العشماوي کے نزدیک نقد اور ذوق
کتاب : قضايا النقد الأدبي
نقاد کے نزدیک نقد کا مطلب محض اعتراض یا تعریف نہیں بلکہ فنّی آثار کو سمجھنے اور پرکھنے کی صلاحیت ہے۔ چونکہ ہر فن پارہ اپنی جمالیاتی (aesthetic) قدر کے لحاظ سے مختلف درجے رکھتا ہے، اس لیے تنقید کا مقصد یہ ہے کہ ان قدروں کو پہچان کر ان کا صحیح مقام متعین کیا جائے۔ لیکن اس میں دشواری یہ ہے کہ فن کی قدر کے پیمانے ریاضی یا سائنس کی طرح قطعی نہیں ہوتے، بلکہ ذوق اور احساس پر مبنی ہوتے ہیں۔
ادب اور فن میں تفاوتِ رائے فطری بات ہے، کیونکہ فن کا حسن مختلف اذہان پر مختلف اثر ڈالتا ہے۔ تاہم ایک بات مسلم ہے کہ سچا ناقد وہ ہے جس کے پاس دلائل اور تربیت یافتہ ذوق ہو — ایسا ذوق جو شخصی خواہش یا وقتی اثر سے بلند ہو کر انصاف سے فیصلہ کرے۔
🎨 ذوق کی اہمیت اور اس کی نوعیت
مصنف واضح کرتا ہے کہ ذوق ہی وہ بنیاد ہے جس پر کسی فن پارے کا حسن پہچانا جا سکتا ہے۔ لیکن ہر ذوق معتبر نہیں ہوتا۔ ناقد کا ذوق تربیت یافتہ، مشق یافتہ اور علمی بنیادوں پر قائم ہونا چاہیے۔ اگر تنقید صرف ذاتی پسند و ناپسند پر مبنی ہو تو وہ انصاف سے خالی ہوگی۔
اسی خوف سے کچھ نقادوں نے ادب کو سائنسی اصولوں کے تابع کرنے کی کوشش کی، تاکہ ذوق کی انفرادی کیفیت ختم ہو جائے۔ لیکن مصنف اس خیال کو غلط قرار دیتا ہے، کیونکہ ادب اور فنون لطیفہ کی اصل فطرت ہی احساس، وجدان اور انفرادیت پر قائم ہے، نہ کہ تجربہ گاہی اصولوں پر۔
لہٰذا ضروری ہے کہ ہم ذوقی تاثر کو تسلیم کریں، مگر اسے ضبط و شعور کے ساتھ استعمال کریں۔ ذوقی تاثر وہی معتبر ہے جو مطالعہ، تجربہ اور ثقافت سے نکھرا ہو۔
🏺 عربی نقادوں کی آراء
عرب ناقدین نے بھی ذوق کی اہمیت کو بخوبی سمجھا۔
• ابن سلام الجمحی نے فرمایا کہ شعر کا استحسان عام آدمی نہیں کر سکتا، بلکہ ناقد کو صرّافِ درہم و دینار کی مانند ہونا چاہیے، جو اصلی اور نقلی سکہ پہچان سکے۔
• انہوں نے واضح کیا کہ محض اچھا لگنا کافی نہیں، بلکہ اچھا لگنے کا سبب سمجھنا ضروری ہے۔
اسی طرح عبدالقاہر الجرجانی نے کہا کہ بلاغت اور حسنِ کلام کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس کے اندر ذوقِ لطیف اور قریحهٔ سلیم ہو۔ ذوق ایک ایسی روحانی کیفیت ہے جو لفظوں کے باطن میں پوشیدہ معنویت کو پہچانتی ہے۔
💫 ذوق اور لذت (Pleasure) کا فرق
مصنف نے واضح کیا کہ ذوق اور لذت میں فرق ہے۔
• لذت محض وقتی خوشی ہے جو کسی شعر یا فن پارے سے فوراً حاصل ہوتی ہے۔
• ذوق گہری فہم و بصیرت کا نام ہے جو مطالعہ، تربیت، اور فکری پختگی سے پیدا ہوتی ہے۔
فن کا مقصد صرف لذت نہیں بلکہ معرفت اور حسنِ توازن کا ادراک ہے۔ کوئی فن پارہ ہمیں خوش تو کر سکتا ہے مگر پھر بھی فنی طور پر کمزور ہو سکتا ہے۔ اس لیے صرف خوشی یا لذت پر فیصلہ کرنا ناپختگی کی علامت ہے۔
📚 یورپی نقادوں کی آراء
T. S. Eliot نے کہا کہ تنقید کی اصل بنیاد یہ ہے کہ ناقد اچھی اور بری نظم میں تمیز کر سکے۔
ذوق پیدائشی نہیں بلکہ تجربات، مطالعہ، اور تربیت سے نشوونما پاتا ہے۔
اسی طرح Lionel Elvin نے کہا کہ ذوق ایک ایسا وصف ہے جو اچھے ادب کی مسلسل صحبت سے پیدا ہوتا ہے۔ اگر کسی کا ذوق بچپن سے اعلیٰ ادب کے ساتھ پروان چڑھے، تو وہ "غریزی" معلوم ہوتا ہے، حالانکہ وہ دراصل تربیت یافتہ ہوتا ہے۔
🧭 منہجِ تاریخی اور دیگر مناہج
مصنف اس بات پر زور دیتا ہے کہ تاریخی منہج (Historical Method) ادب فہم کے لیے مفید ہے کیونکہ یہ ہمیں مصنف کے حالات، زمانے اور ماحول سے واقف کرتا ہے۔ لیکن صرف اسی پر انحصار غلط ہے، کیونکہ اس سے فن کے جمالیاتی پہلو پسِ پشت چلے جاتے ہیں۔
ایلیٹ (Eliot) نے بھی تاریخی منہج کی اہمیت کو تسلیم کیا، مگر اس کی توجیہہ جمالیاتی پہلو سے کی۔ ان کے نزدیک ہر نیا فن پارہ ماضی کے تمام فن پاروں سے جڑا ہوتا ہے، اور اس کی قدر اسی وقت سمجھ آتی ہے جب ہم اسے سابقہ ادب کے تسلسل میں دیکھیں۔
🕊️ نتیجہ
مصنف نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ تنقید کے میدان میں تاریخی، نفسیاتی، فلسفیانہ یا لسانی مناہج سب مددگار ہو سکتے ہیں، مگر ان میں سے کوئی بھی ادب کا اصل مقصد — فن کی قدر اور تاثیر — کا متبادل نہیں بن سکتا۔
ادب کا مطالعہ محض تاریخی یا معاشرتی دستاویز کے طور پر نہیں بلکہ جمالیاتی تجربہ کے طور پر ہونا چاہیے۔ ناقد کا اصل کام یہ ہے کہ وہ فن پارے کے حسن، تاثیر، اور فکری عمق کو سمجھے، نہ کہ صرف اس کے پس منظر کو۔
یوں مصنف کے نزدیک ذوقِ ادبی ہی وہ پیمانہ ہے جس پر تنقید کی بنیاد قائم ہونی چاہیے، بشرطے کہ وہ تربیت یافتہ، مطالعہ شدہ، اور ثقافت سے جڑا ہوا ذوق ہو — ایسا ذوق جو نہ اندھی تقلید کرے نہ وقتی اثر میں بہہ جائے، بلکہ فن کی روح کو پہچانے۔
ادبی تنقید کا مقصد فن پارے کی خوبصورتی اور فکری گہرائی کا انکشاف ہے۔
یہ نہ صرف علمی فہم بلکہ دل، احساس اور ذوقِ لطیف کا تقاضا کرتا ہے۔
چنانچہ سچا ناقد وہی ہے جس کا ذوق تربیت یافتہ ہو، علم سے جڑا ہو، اور جو ہر فن پارے کا انصاف کے ساتھ مطالعہ کر سکے۔
No comments:
Post a Comment