"Ruh-Navesht— Writings of Soul

Full width home advertisement

حسن کیا ہے ؟

حسن کیا ہے اور اس کا اثر

دنیا کی تمام تہذیبوں، مذاہب اور فلسفوں میں اگر کوئی سوال ایسا ہے جس نے یکساں طور پر عقل و وجدان دونوں کو بےچین رکھا ہے تو وہ سوال ہے ’’حسن کیا ہے؟‘‘ انسان جب بھی کسی منظر، کسی نغمے، کسی لفظ یا کسی چہرے میں ٹھہر کر محوِ حیرت ہوتا ہے، تو دراصل وہ اُس ازلی سوال سے دوچار ہوتا ہے جسے کوئی فلسفی مکمل طور پر بیان نہیں کرسکا۔ حسن وہ راز ہے جو دیکھا تو جا سکتا ہے مگر سمجھا نہیں جا سکتا، وہ کیفیت ہے جو دل پر اترتی ہے مگر لفظوں میں نہیں سماتی۔ اس کی تعریف جس قدر کی گئی، اسی قدر یہ اور زیادہ پراسرار ہوا۔

یونانیوں نے حسن کو کائنات کے نظم اور توازن میں دیکھا۔ افلاطون کے نزدیک حسن محض جسمانی یا حسی لذت کا نام نہیں بلکہ ایک روحانی دروازہ ہے جس کے وسیلے سے انسان ازل کی اُس دنیا کو یاد کرتا ہے جہاں اس کی روح نے ’’صورتِ کاملہ‘‘ دیکھی تھی۔ افلاطون کے مکالمے  Symposium  میں سقراط بیان کرتا ہے کہ عاشقِ حقیقی جب کسی جسمانی حسن کو دیکھتا ہے تو وہ اس حسن سے ماوراء ہو کر دوسرے حسنات کی طرف چڑھتا ہے، حتیٰ کہ وہ ’’خودِ حسن‘‘ تک پہنچتا ہے — یعنی وہ ازلی اور ابدی حسن جو تمام صورتوں کے پیچھے ہے۔ یہ وہی تصور ہے جسے افلاطون ’’نردبانِ عشق‘‘ کہتا ہے، جس کے ہر زینے پر انسان کا ادراک بلند ہوتا ہے۔ چنانچہ حسن اُس کے نزدیک صرف ’’نظر کی خوشی‘‘ نہیں بلکہ ’’روح کی معراج‘‘ ہے۔

ارسطو کے ہاں حسن کچھ اور ہے۔ وہ کہتا ہے: ’’حسن وہ ہے جس میں ترتیب ہو، تناسب ہو، اور جس کی حدود معین ہوں۔‘‘ اُس کے نزدیک خوبصورتی اُس شے کی صفت ہے جو اپنے اجزاء کے درمیان ہم آہنگی رکھتی ہو۔ ایک فنکار جب کوئی مجسمہ تراشتا ہے یا شاعر جب کوئی نظم کہتا ہے، تو اُس کے حسن کا دارومدار اس پر ہے کہ وہ کس قدر ’’تناسب‘‘ اور ’’وحدت‘‘ قائم رکھتا ہے۔ یہ وہی تصور ہے جو آگے چل کر مغرب کے ’’کلاسیکی جمالیات‘‘ کا سرچشمہ بنا۔

لیکن افلوطین نے حسن کو ایک نئے رنگ میں دیکھا۔ اُس نے کہا کہ حسن، وجود کی روشنی ہے۔ جو شے زیادہ قریب ہے ’’اصلِ نور‘‘ کے، وہی زیادہ حسین ہے۔ ’’جو حسن دیکھنا چاہتا ہے، وہ اپنے اندر اترے‘‘ — افلوطین کا یہ قول فلسفۂ اشراق کی بنیاد بن گیا۔ اُس کے نزدیک حسن وہ نور ہے جو ایک لمحے کے لیے ہمیں ہمارے ماخذ — ’’الواحد‘‘ — کی یاد دلاتا ہے۔ یہ وہی نظریہ ہے جس کی بازگشت بعد کے صوفیانہ فلسفے میں صاف سنائی دیتی ہے۔

زمانہ آگے بڑھا تو مغربی فلسفے میں حسن کا مفہوم بدلنے لگا۔ کانٹ نے اپنی    Critique of Judgment    میں حسن کو ’’غرض سے آزاد لذت‘‘ کہا — یعنی ایسی خوشی جو صرف تماشائی کے لطف سے پیدا ہو، نہ کہ کسی مادی یا نفسانی مفاد سے۔ شوپنہاور کے نزدیک حسن کا لمحہ وہ ہے جب انسان کا ’’ارادہ‘‘ تھم جاتا ہے، اور وہ محض دیکھنے والا بن جاتا ہے — یعنی وہ لمحہ جب ہم کسی شے کو اس کے خالص وجود میں دیکھتے ہیں، نہ کہ کسی غرض سے۔ نطشے نے اسے اور آگے بڑھا کر کہا کہ حسن دراصل ’’نظم و جنون‘‘ کے امتزاج سے پیدا ہوتا ہے — ’’اپولو‘‘ کی روشنی اور ’’دیونوس‘‘ کے خمار کا توازن۔ نطشے کے نزدیک عظیم فن وہ ہے جو زندگی کے دکھ کو حسن میں بدل دے۔ اسی کو وہ ’’المیہ حسن‘‘ کہتا ہے۔

شاعروں نے فلسفیوں کی نسبت حسن کو زیادہ محسوس کیا ہے۔ کیٹس کا مشہور مصرعہ ’’Beauty is truth, truth beauty‘‘ دراصل مغربی جمالیات کا خلاصہ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ حسن ہی وہ سچائی ہے جو انسان کو فنا سے نجات دیتی ہے، کہ حسن میں انسان کو لافانیت کا احساس ہوتا ہے۔ گوئٹے کہتا ہے: ’’جس نے حسن کو پہچان لیا، اُس نے خدا کو پہچان لیا۔‘‘ اور شیلے لکھتا ہے: ’’Poetry lifts the veil from the hidden beauty of the world‘‘ — شاعری دنیا کی پوشیدہ خوبصورتی سے پردہ اٹھا دیتی ہے۔

لیکن مشرق نے حسن کو ایک بالکل مختلف زاویے سے دیکھا۔ یہاں حسن محض مظاہرِ فطرت یا فنونِ لطیفہ کا وصف نہیں بلکہ وہ حقیقت ہے جو خدا کی صفات میں سے ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "اللہ جمیل ہے اور حسن کو پسند فرماتا ہے"۔ یہ قول پوری اسلامی جمالیات کی بنیاد ہے۔ اس کے مطابق حسن کوئی اختیاری شے نہیں، بلکہ وہ خدا کی ذات سے صادر ہونے والی صفت ہے۔ کائنات میں ہر حسن — چاہے وہ سورج کی کرن ہو یا قرآن کی آیت، کسی محبوب کا چہرہ ہو یا کسی درخت کی سبزی — دراصل ’’جمالِ الٰہی‘‘ کا مظہر ہے۔

امام غزالی نے ’’مِشکاة الانوار‘‘ میں لکھا: ’’ہر ظاہری حسن دراصل اُس نور کا عکس ہے جو حق تعالیٰ کی ذات سے پھوٹتا ہے۔‘‘ ان کے نزدیک حسن صرف آنکھ سے نہیں بلکہ دل سے دیکھا جاتا ہے، اور دل جتنا پاک ہوتا ہے، حسن کا ادراک اتنا زیادہ ہوتا ہے۔ غزالی کے نزدیک جمال اور کمال لازم و ملزوم ہیں: ’’حسن اُس کمال کا نام ہے جو ادراک میں خوشی پیدا کرے۔‘‘ یعنی جہاں کمال ہو، وہاں حسن ہے۔ چنانچہ علم، عدل، صداقت — سب حسن کے ذیل میں آتے ہیں، کیونکہ یہ صفات حق تعالیٰ کی کامل صفات ہیں۔

شیخ اکبر محی الدین ابن عربی نے حسن کو ’’تجلّی‘‘ کا نام دیا۔ ان کے نزدیک خدا ہر لمحہ اپنے آپ کو صورتوں میں ظاہر کرتا ہے۔ دنیا میں جو کچھ بھی حسین ہے، وہ اسی ’’تجلیِ ذات‘‘ کا عکس ہے۔ ابن عربی کہتے ہیں: ’’محبوب کوئی نہیں مگر اللہ۔‘‘ یعنی جو کوئی کسی چیز میں حسن دیکھتا ہے، وہ دراصل اُس ایک ہی محبوب کو دیکھتا ہے جو سب میں جلوہ گر ہے۔ عشقِ حقیقی کا پہلا دروازہ یہی ادراکِ جمال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیاء کے نزدیک حسن کا مشاہدہ عبادت ہے، کیونکہ وہ حسن، خالق کی پہچان کا وسیلہ بنتا ہے۔

قرآنِ مجید میں جب اللہ فرماتا ہے: "اللہ نے ہر چیز کو حسن کے ساتھ پیدا کیا"، تو اس میں یہ اشارہ ہے کہ حسن تخلیق کی ساخت میں شامل ہے۔ عربی میں ’’احسان‘‘ کا لفظ ’’حسن‘‘ ہی سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے ’’کمال کے ساتھ کام کرنا‘‘۔ چنانچہ جب قرآن کہتا ہے ’’اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘ تو اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ خدا اُنہیں پسند کرتا ہے جو اپنے عمل میں حسن پیدا کرتے ہیں — خواہ وہ عبادت ہو، شعر ہو، یا کردار۔

اسلامی تہذیب میں حسن کا تصور صرف فلسفے یا مذہب تک محدود نہیں رہا، بلکہ فن، شاعری، خطاطی، اور روزمرہ زندگی تک پھیلا۔ عربی شاعری میں ’’حسن‘‘ محض ظاہری خوبصورتی نہیں بلکہ فصاحت، شجاعت، سخاوت، اور اخلاقی بلندی کا نام ہے۔ امرؤ القیس جب محبوبہ کے خیمے کے کنارے کو ’’صبح کی پہلی کرن‘‘ سے تشبیہ دیتا ہے، یا المتنبی جب کہتا ہے ’’میری سخاوت آسمان سے زیادہ وسیع ہے‘‘ تو یہ سب ’’حسنِ معنی‘‘ کے مظاہر ہیں۔ عربی خطاطی میں بھی حسن صرف حروف کی بناوٹ نہیں، بلکہ اس روحانی توازن کا اظہار ہے جو ’’توحید‘‘ کی علامت ہے — ایک خط میں اتنی وحدت کہ ہر خم و پیچ ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کا ترجمہ بن جائے۔

یہی جمالیاتی شعور فارسی و اردو تہذیب میں بھی آیا۔ حافظ شیرازی کہتا ہے:

"ہر کہ شد محرم دل در حرم یار بماند

وان کہ این کار ندانست در انکار بماند"


یعنی جس نے دل کے حرم میں حسنِ یار کا جلوہ دیکھا، وہ باقی رہا؛ جو اس راز سے ناواقف رہا، وہ انکار میں گم رہا۔ اقبال کے ہاں بھی حسن، عشق کا محرک ہے۔ وہ کہتے ہیں:

"حسن سے پیدا ہوا عشق اور عشق حسن کا راز ہے

حسن ہے اک بجلی کا شعلہ، عشق ہے اس کی ساز ہے"


اقبال کے نزدیک حسن وہ کشش ہے جو انسان کو کمال کی طرف لے جاتی ہے۔ جب وہ کہتا ہے ’’خودی کو کر بلند اتنا‘‘، تو دراصل وہ حسنِ کردار، حسنِ عمل اور حسنِ ارادہ کی دعوت دیتا ہے۔

حسن کے اثر کی بات کی جائے تو یہ اثر ظاہری نہیں بلکہ باطنی ہے۔ حسن انسان کے اندر خاموش انقلاب پیدا کرتا ہے۔ ایک حسین شے دیکھ کر انسان لمحہ بھر کے لیے خود سے باہر نکل جاتا ہے۔ وہ اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر کسی اعلیٰ وجود کو محسوس کرتا ہے۔ یہی ’’حالتِ کشف‘‘ ہے۔ افلاطون نے کہا تھا کہ حسن ہمیں ’’یاد دلاتا‘‘ ہے کہ ہم کبھی کسی کامل دنیا میں تھے۔ صوفیاء نے کہا کہ حسن ہمیں ’’وصال‘‘ کی خواہش دلاتا ہے۔ جدید شاعر کہتا ہے کہ حسن ہمیں ’’زندگی سے محبت‘‘ سکھاتا ہے۔ مگر سب کا مقصود ایک ہے: حسن انسان کو اپنے منبع کی طرف لے جاتا ہے۔

روس کے فلسفی دوستوئیفسکی نے کہا تھا: "Beauty will save the world" — ’’حسن دنیا کو بچائے گا۔‘‘ یہ جملہ کوئی مبالغہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔ کیونکہ جہاں حسن ہے وہاں توازن ہے، جہاں حسن ہے وہاں ظلمت نہیں رہ سکتی۔ حسن نفرت کو نرم کرتا ہے، دلوں کو بیدار کرتا ہے، اور انسان کے اندر وہ نرمی پیدا کرتا ہے جس کے بغیر کوئی تہذیب باقی نہیں رہ سکتی۔

حسن کا سب سے بڑا اثر یہ ہے کہ یہ انسان کو ’’ادراکِ کائنات‘‘ کی طرف لے جاتا ہے۔ جب وہ کسی منظر میں حسن دیکھتا ہے، تو دراصل وہ کائنات کے اندر نظم اور معنی کو پہچانتا ہے۔ اس کے برعکس بدصورتی انسان کو بےمعنی کر دیتی ہے۔ اسی لئے قرآن کہتا ہے: ’’اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا۔‘‘ یعنی حسن اور حق لازم و ملزوم ہیں۔

زندگی میں حسن کو اپنانا محض جمال پرستی نہیں، بلکہ عبادت ہے۔ کیونکہ حسن ہمیں خدا کے قریب کرتا ہے۔ ایک شاعر، ایک مصور، ایک قاری — سب اپنے اپنے انداز میں حسن کی تلاش میں ہیں۔ وہ جب کوئی شعر کہتا ہے یا کوئی نغمہ چھیڑتا ہے، تو وہ دراصل ’’تجلی‘‘ کی تمنا کر رہا ہوتا ہے۔ انسان کی تمام تخلیقات اسی خواہش کی علامت ہیں۔

آخرکار، حسن کوئی چیز نہیں، ایک کیفیت ہے۔ یہ نہ صرف آنکھوں میں بلکہ نیت میں، کردار میں، الفاظ میں، سلوک میں ظاہر ہوتا ہے۔ جو شخص حسن کو صرف چہرے میں دیکھتا ہے وہ سطح پر رہ جاتا ہے؛ جو اسے دل میں محسوس کرتا ہے، وہ حقیقت کے قریب آجاتا ہے۔
صوفیاء کا کہنا ہے کہ ’’جو حسن کو پہچان گیا، وہ عشق کے دروازے پر پہنچ گیا۔‘‘ کیونکہ حسن دراصل ’’حق‘‘ کی زبان ہے — ایک ایسی زبان جو الفاظ سے نہیں، تجلیوں سے بولتی ہے۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ حسن حقیقت کا سب سے نرم اور سب سے دلکش روپ ہے۔ یہ کائنات کے اندر خدا کی موجودگی کی دلیل ہے۔ وہ روشنی جو ہر شے میں چمکتی ہے، وہی حسن ہے۔ انسان جب کسی لمحے اُس روشنی کو دیکھ لیتا ہے تو اُس کی روح جاگ اٹھتی ہے۔ وہ خاموش ہو جاتا ہے، کیونکہ حسن کے سامنے الفاظ بےبس ہو جاتے ہیں۔

زندگی اگر حسن سے خالی ہو تو یہ محض حرکت ہے، معنی نہیں۔ اور حسن اگر صداقت سے خالی ہو تو یہ فریب ہے، حقیقت نہیں۔ اصل کمال اُس امت کو نصیب ہوتا ہے جو حسن و حق، عشق و عقل، جمال و کمال — سب کو ایک وحدت میں جوڑ دے۔ یہی وحدتِ حسن ہے، یہی وحدتِ وجود، اور یہی وحدتِ عشق۔


No comments:

Post a Comment